کہانی آسمانوں کو چھونے والے پاکستانی آرٹسٹ کی


نسیم یوسفزئی نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز قلم سے کیا تھا کام کرتے کرتے وہ بجلی سے کھیلنے لگے اور اب وہ کباڑ خانے پہنچ گئے نسیم کی عمر 50 برس سے زیادہ ہو چکی ہے لیکن ان کے شوق کا کوئی مول نہیں ہے وہ آج بھی وہ اپنا کام اتنی ہی چستی اور لگن کے ساتھ کرتے ہیں جیسے وہ اپنی جوانی میں کیا کرتے تھے ان کا سب سے بڑا کارنامہ 1995 کی یومِ پاکستان کی پریڈ کے لیے ایک وسیع فلوٹ کی تیاری تھا جس کے لیے انھیں اس برس کے مقابلے میں دوسرا انعام بھی مل چکا ہے پھر سنہ 2001 میں انھوں نے ایک ‘کباڑ کے ہوائی جہاز’ میں اڑان بھری جسے انھوں نے ایک پرانے گاڑی کے انجن، لکڑی کے
پنکھوں،لوہے کے پائپ اور کینوس کی شیٹ سے بنے پروں کے ذریعے ترتیب دیا تھا وہ اس مشین کو پانچ منٹ تک ہوا میں رکھنے میں کامیاب رہے لیکن پھر ان کے بھائیوں نے پریشان ہو کر انھیں زمین پر اترنے کا کہا اور اٹھا کر سیدھا اپنی والدہ کے پاس لے گئے۔ پریشان حال ماں نے بیٹے سے قسم اٹھوائی کہ وہ آئندہ ایسا کرنے کی کوشش نہیں کریں گے یہ قسم انھوں نے آج تک نہیں توڑی۔ نسیم کے والد ایک دہاڑی دار مزدور تھے جو سوات سے ہجرت کر کے کام کے غرض سے پشاور آ بسے۔ نسیم کا بچپن غربت کے سائے میں گزرا لیکن انھوں نے ان مشکلات کو کبھی اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا ہے ‘میرے بڑے بھائی پڑھنا نہیں چاہتے تھے اور ہمارے والد صاحب نے بخوشی انھیں سکول چھوڑنے کی اجازت دے دی۔ جب میں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو انھوں نے اس بات پر اسرار نہیں کیا نسیم یوسفزئی کہتے ہیں کہ بچپن میں انھوں نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کا تقریباً ہر کام میں ہاتھ بٹایا سکول کے بعد وہ منڈی جا کر سبزیاں خریدتے اور پھر انھیں اپنے علاقے میں لا کر بیچ دیتے تھے انھوں نے کچھ عرصہ الیکٹریشن کی دکان میں اور تھوڑی دیر ایک درزی کی دکان میں بھی کام کیا ہے وہ بتاتے ہیں کہ ’بچپن سے ہی میرے اندر مصّوری کا شوق پنپ رہا تھا‘ اور شاید یہی وجہ ہے کہ زندگی کے اگلے ادوار میں انھوں نے تخلیقی کاموں پر توجہ دی اور اب وہ کباڑ اور سکریپ سے فن پارے بناتے ہیں ‘جب کوئی چیز میری توجہ حاصل کر لیتی تو مجھ سے اس کا عکس کاغذ پر منتقل کیے بغیر رہا نہیں جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ میں روزمرہ کی اشیا سے انسانوں کی تصویروں کی طرف آیا۔انھوں نے 1986 میں الیکٹریکل انجینرنگ میں ڈپلومہ حاصل کیا
اور نوکری شروع کی جہاں وہ آج بھی ملازمت کر رہے ہیں۔’میرے بڑے بھائی پڑھنا نہیں چاہتے تھے اور ہمارے والد صاحب نے بخوشی انھیں سکول چھوڑنے کی اجازت دے دی۔ جب میں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو انھوں نے اس بات پر اسرار نہیں کیا۔اپنے کام کے ساتھ ساتھ انھوں نے مقامی اخباروں کے لیے سیاسی کارٹون بھی بنانا شروع کر دیے جس سے نہ صرف ان کے گھر کا خرچ چلتا بلکہ ان کی تخلیقی حِس کو بھی تسکین ملتی۔پھر انھوں نے پشاور کے نشتر ہال میں شام کی شفٹ میں مصوری اور بڑے کینوس پر آئل پینٹنگ کا فن سیکھنا شروع کیا۔1994 کے اوآخر میں ان کی نظر اخبار میں چھپے ایک اشتہار پر پڑی
جس میں مصوروں کو صوبہ سرحد کی تاریخ و ثقافت کی ترجمانی کرتے ہوئے فلوٹ تیار کرنے کی دعوت دی گئی جنھیں سالانہ یومِ پاکستان کی تقریب میں استعمال کیا جانا تھا۔نسیم نے اشتہار کا جواب دیا اور ان کا ڈیزائن سرکاری طور پر منظور ہو گیا۔انھیں اپنے بیٹے کی اڑان کا اس وقت پتا چلا جب کسی نے ان کے گھر فون کر کے انھوں بتایا۔ اُس وقت نسیم پشاور کے قریب ایک چھوٹی سی رن وے پر پہنچ چکے تھے اور اپنا طیارہ اڑانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔اس ہی زمانے میں کئی گھریلو ساختہ جہازوں کے گر کر تباہ ہونے کی خبریں گردش کر رہی تھیں اور ایک واقعے میں تو پائلٹ کی موت بھی ہوئی۔ اس سب نے
نسیم کی والدہ کو بےحد پریشان کر دیا تھا۔ نسیم کہتے ہیں کہ مجھے ہوا میں پانچ منٹ ہی ہوئے تھے جب میں نے اپنے بھائیوں کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا۔ وہ زور زور سے ہاتھ ہلا کر مجھے نیچے آنے کو کہہ رہے تھے۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ چونکہ وہ خود الیکٹریشن اور ان کے بھائی گاڑیوں کے سپیئر پارٹس کا کام کرتے ہیں، اس لیے ان کے ارد گرد کافی کباڑ جمع تھا، گھر پر بھی اور دفتر میں بھی۔