مجھے بھی جینے کا حق دیں


آپ میں سے بہت سے لوگوں نے اکثر فلموں میں دیکھا ہوگا کہ کس طرح سے خفیہ ادارے اپنے افراد کو مختلف جگہوں پر کام سونپتے ہیں اور اگر وہ کامیاب ہوجائیں تو اس کامیابی میں برابر کے حصے دار ہوتے ہیں ، دوسری صورت میں اگر متعلقہ شخص پکڑا جائے تو اسے لاتعلقی کا اظہار کرکے خود کو بے گناہ ثابت کیا جاتا ہے ۔ یہ تو دیناوی دنیا کے کام ہیں مگر کچھ ایسا ہی کردار مجھے چرچ آف پاکستان لاہور ڈائیوسس کا نظر آیا ، سوچا چند حقائق آپ کے سامنے رکھے جائیں۔
قصہ کچھ یوں شروع ہوتا ہے ، میرے عزیز دوست آشر جان نے چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ٹاک شو میں پشاور ڈائیوسس کے بشپ اورچرچ آف پاکستان کے مارڈریٹر بشپ ہمفری پیٹر کو مدعو کیا۔ پہلے تو میں اپنے دوست کا شکرگزار ہوں جنہوں نے چرچ میں ہونے والی بے ضابطگیوں، بے قاعدگیوں اور خادمین دین کی غلط کاریوں کے بارے میں پبلک فورم پربحث کا آغاز کیا اور یوں ”مقدس گائے“ پر بات تو شروع ہوئی۔ میں یہ واضع کردوں کہ بطور صحافی ہمارا کام حقائق کو سامنے لانا ہے ، فیصلہ عوام نے کرنا ہے یا عدالتیں اس بات کی مجاز ہیں ۔ مگر افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ کس طرح سے یہ لوگ خدا کے نام کو استعمال کرتے ہوئے اپنے عہدوں کو ناجائز استعمال کررہے ہیں اور جس ڈھٹائی کے ساتھ خدا کے خادم ہونے دعویدار کے باوجود جھوٹ بولتے ہیں وہ شاید عام آدمی بھی کرتے ہوئے تھوڑا سا شرمندہ ضرور ہوگا۔
جاری ہے …
پروگرام کے دوران جس طرح سے بشپ ہمفری پیٹر نے کراچی ڈائیوسس کے پشپ صادق ڈانیئل کو کلین چٹ دے رہے تھے وہ باعث شرم ہے۔ موصوف کا کچا چٹھا تو آئندہ بیان کرونگا فی الحال ہمفری پیٹر کی یاد دہانی کیلئے عرض ہے کہ میرے پاس موجود کاغذات کے مطابق لاہور ڈائیوسس کے پشپ عرفان جمیل نے مورخہ 22 مئی ، 2014ء کو بلوچستان ہائی کورٹ میں جو بیان حلفی جمع کروایا تھا اس کی وجہ 2010ء میں پشپ صادق ڈانیئل کا کارنامہ تھا ۔موصوف نے ایسے بہت سے کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں جن کی فہرست بہت لمبی ہے۔ ہمفری پیٹر صاب ، مجھے حیرانگی اس بات پر ہوئی کہ آپ دوسروں کو پارساء قرار دے رہے ہیں، ذرا اپنے کارناموں پر بھی نظر ڈال لیں۔ لاہور ڈائیوسس ، پاکستان میں چرچ آف پاکستان کی تمام پراپرٹیز کی نگران کے طور پر کام کرتا ہے لہذا عرفان جمیل نے عدالت میں بیان حلفی جمع کرواتے ہوئے لکھا کہ بشمول لاہور ڈائیوسس ، چرچ آف پاکستان کا کوئی بھی نمائندہ چرچ پراپرٹیز کو لیز پر دینے، بیچنے ، کسی دوسرے کے نام پر منتقل کرنے، گروی رکھوانے، تحفہ دینے، ختم کرنے یا ردوبدل کرنے کا مجاز نہیں ہے۔جبکہ پشپ ہمفری پیٹر صاب کے چند کارنامے آپ کے سامنے رکھتے ہیں ۔
چرچ کی زمینوں پر دکانوں کا قیام
جناب والا، ڈیرہ اسماعیل خان میں چرچ کی زمین پر کسی انوسٹرکی مدد سے بشپ ہمفری پیٹر کے زیر سایہ 62 دکانیں تعمیر کی گئی، جن کی خریدوفروخت کاکام 2012ء سے لیکر اب تک جاری ہے، اس کے علاوہ اسی چرچ کمپاﺅنڈ کے اندر 23 مزید دوکانیں زیر تعمیر ہیں جو مقامی افراد کی مداخلت کی وجہ سے سٹے آرڈر کی وجہ سے رکی ہیں۔ اس کے باوجود جناب کی کاروائیاں جاری رہیں اور مقامی کلیسیاء نے جوزف بہادر کی سربراہی میں مارچ 2017ء کو دھرنا دیا جس پر مقامی انتظامیہ حرکت میں آئی ۔ اس کے باوجود جناب نے اپنی کاروائی جاری رکھی جس کے بعد 2018ء میں پشاور ہائی کورٹ نے تقدس مآب جناب پشپ ہمفری پیٹر کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے ۔قصہ یہیں ختم نہیں ہوا ، پشپ صاب کے زیر سایہ چرچ پراپرٹیز پر تعمیر شدہ دکانوں کی خریدوفروخت کے اشتہارات سینٹ جانز چرچ ، ڈیرہ اسماعیل خان کے اطراف میں آج بھی نمایاں نظر آئیں گے اور پشاور ڈائیوسس نے پشاور ہائی کورٹ کے واضع فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کررکھا ہے۔ ایڈورڈ کالج پشاور کو موصوف کے کارناموں سے جو نقصان ہوا وہ سب کے سامنے ہے ۔ اس کے علاوہ مردان چرچ سمیت ایسے بہت سے کارناموں کے ثبوت موجود ہیں مگر یہ صاب دوسروں کی صفائیاں پیش کررہے ہیں۔
اب ان کارناموں کے پیچھے لاہور ڈائیوسس کا وہی کردار ہے جو خفیہ اداروں کاہوتا ہے، لاہور ڈائیوسس جب معاملات خراب ہوتے نظر آتے ہیں توفورا لاتعلقی کا اظہار کردیتی ہے یہاں ایک بار پھر کچھ ایسا ہی ہوا کہ لاہور ڈائیوسس نے ان تمام معاملات سے لاتعلقی کا نوٹس جاری کردیا ۔ ویسے تو یہ تمام کردار ایک ہی تھالی کے چٹے وٹے ہوتے ہیں اس بات کا ثبوت اس بات سے ہوتا ہے کہ پشپ آف فیصل آباد نے گزشتہ سالوں کے دوران جب سویڈن کی پشپ آنچے جیکولین (آرچ بشپ سویڈن) کو مدعو کیا تو پشپ آف فیصل آباد کے ساتھ سیالکوٹ ڈائیوسس، پشاور ڈائیوسس اور دیگر حضرات بائبل کے منافی تعلیم کے پرچار میں ایک میز پر نظر آئے ، یوں یہ لوگ نہ صرف مالی بلکہ اخلاقی اور مذہبی تعلیم کو بھی اپنے مفاد کیلئے توڑ مروڑ کر بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا چرچ آف پاکستان ، رومن کاتھولک چرچ ، پرسبٹیرین چرچ اور دیگر مذہبی راہنماﺅں نے ذاتی مفادات سے ہٹ کر عام مسیحی کی بہتری کیلئے بھی کوئی کردار ادا کیا ہے یا پھر مذہب اور عہدے کو اپنے گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے اور چرچ کے فنڈز کو غریبوں کی فلاح وبہبود پر خرچ کرنے کی بجائے عدالتی کاروائیوں اور وکیلوں کو فیسیں دینے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ باقی صاحبان کی تفصیل آئندہ قسط میں پیش کرونگا۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی تحقیق اور رائے ہے ادارہ این این اردو کا مصنف سے متفق ہونا ضروری نہیں