لاک ڈون کے دوران راشن کی متعصبانہ تقسیم


چند روز قبل روبینہ بھٹی کا واٹس ایپ پر پیغام آیا ، لکھا تھا کہ پاکستان میں امدادی ٹیمیں لاک ڈون کے دوران راشن کی تقسیم میں غیر مسلم کے ساتھ امتیازی سلوک کررہی ہیں لہذا اس کے بارے میں بھی کچھ لکھیں ۔میں نے پوچھا کہ ایسا واقعہ اگر کہیں ہوا ہے تو بتائیں میں اس کی تفصیلات چیک کرلیتا ہوں اور اگر ضروری ہوا تو یقینا لکھوں گا۔ روبینہ کے ساتھ میری پہلی ملاقات کافی سال پہلے راستی (این جی او) کے دفتر میں ہوئی تھی۔ روبینہ بھٹی نے مذہب کی بنیاد پر جس امتیازی سلوک کے واقعے کا جو لنک بھیجا وہ ویب سائٹ تو نہ کھل سکی ، البتہ کچھ معلومات جو مجھے ملی وہ بیان کردیتا ہوں۔ہوا کچھ یوں تھا کہ ”سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ ‘ ‘ والے کراچی کے کسی علاقے میں راشن تقسیم کررہے تھے کہ وہاں موجود لوگوں میں کچھ مسیحی قوم لوگ بھی موجود تھے جنہیں اس ٹرسٹ والوں نے یہ کہہ کہ راشن دینے سے انکار کردیا کہ یہ ٹرسٹ صدقے اور زکوۃ پہ چلتا ہے لہذا نان مسلم کو نہیں دے سکتے۔
این این اردو کی ویڈیوز دیکھنے کیلئے لنک پر کلک کرکے یوٹیوب چینل ضرور سبسکرائب کریں
https://www.youtube.com/channel/UC2PC4AtJzSR3F6BSofWXzCg?view_as=subscriber
اسی دوران کچھ لوگوں نے اس کی ویڈیو بھی بنا لی اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ۔ دوسری جانب امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یوایس سی آئی آر ایف) نے بھی اسی واقعے کو بنیاد بنا کر ایک رپورٹ شائع کرتے ہوئے نہ صرف اس واقعے کی مذمت کی بلکہ حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ ایسے واقعات کو روکا جائے اور فلاحی کاموں میں مذہب کی بنیاد پر تعصبانہ سلوک نہ کیا جائے۔ (واضع رہے کہ یو ایس سی آئی آر ایف) نے بھارت میں ہونے والے ایسے واقعات سے متعلق بھی الگ سے ایک رپورٹ شائع کررکھی ہے) ۔ 1947ء کی تقسیم سے پہلے اس علاقے میں ہندو اور سکھوں کا اثرورسوخ زیادہ تھاچونکہ ہندﺅ مذہب میں ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر تعصب موجود ہے اور وہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ اس بنیاد پر بہت برا سلوک کیا کرتے تھے لہذا مسلمانوں نے اسی کو بنیادبناتے ہوئے وہی سلوک پاکستان میں بسنے والے مسیحی اور ہندوﺅں کے ساتھ کرنا شروع کردیا۔ میں نے گزشتہ دس سالوں کے دوران پاکستان میں مذہبی بنیاد پر ہونے والے دہشتگردی اور امتیازی سلوک جیسے واقعات پر بہت سا کام کیا ہے اور اس بات سے انکار نہیں کہ آج بھی ملک کے بیشتر پسماندہ علاقوں میں ایسے واقعات کی تعداد شہروں کی نسبت زیادہ ہے۔ لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ اگر پاکستان میں مسیحیوں کے ساتھ نارواسلوک ہوتا ہے تو اس میں چرچز کے زیر انتظام اداروں ، مسیحی سماجی اور سیاسی افراد کا بھی اتنا ہی قصور ہے جتنا کسی تعصب یا تشدد پسند مسلمان کا ہے۔
جاری ہے
تعلیم معاشرے میں پسماندگی کی بنیادی وجہ ہے ۔ مسیحی تعلیمی ادارے معیاری درسگاہ تصور کیے جاتے رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان اداروں نے پیسہ کمانے کے لالچ کی وجہ سے غریب مسیحی طلباء کو ان اداروں سے دور رکھا، جس کی وجہ سے مجموعی طور پر یہ لوگ آگے نہیں بڑھ سکے۔ غربت کو دور کرنے کیلئے ان اداروں نے وسائل ہونے کے باوجود ان کے لیے بہتر روزگار کا بندوبست نہیں کیا گیا۔ سیاستدانوں نے وقتافوقتا ان کے جذبات سے کھیلتے ہوئے اپنے مفادات حاصل کیے اور چل دیے۔کچھ مسیحیوں نے انفرادی طور پر غریب اور نادار افراد کی غربت دور کرنے کیلئے کام شروع کیے اور چند سالوں کے بعد وہ خود تو سائیکلوں سے بڑی بڑی گاڑیوں میں سوار ہوگئے مگر غریب کی حالت نہ بدلنی تھی نہ بدلی۔ حکومت کی جانب سے مذہب کی بنیاد پر غریب غرباءکیلئے الگ سے کوئی بجٹ مقرر نہیں اور نہ ہی سرکار کو اس بات سے سروکار ہے کہ اگرملک میں کہیں مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق ہورہی ہے تو اس کا نوٹس لے ۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد اقلیتی امور کی وزارت ختم ہوگئی اور اختیارات صوبوں کو منتقل ہوگئے جہاں پسند ناپسند کی بنیاد پر حاصل وسائل کی تقسیم ہوتی ہے۔مرکز میں برائے نام انسانی حقوق کی وزارت موجود ہے ۔لہذا حکومت سے ایسے واقعات کے تدارک کیلئے کوئی بندوبست نہیں اور ایسے واقعات ہوتے رہیں گے جب تک مسیحی خود اپنے آپ کو منظم نہیں کرتے۔ ہندو، پارسی، بھائی اور احمدی فرقے کے لوگ اس لحاظ سے منظم ہیں اور کسی بھی ہنگامی صورتحال میں اپنے لوگوں کی فلاح وبہبود کیلئے جمع ہوجاتے ہیں جبکہ اس کے برعکس مسیحی آج تک اکٹھے نہیں ہوسکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ذاتی مفادات سے بالا تر ہوکر ملکی سطح پرایک غیر سرکاری ادارہ بنایا جائے جس کے پاس پورے ملک کے افراد کا ڈیٹا ہواور ضرورت پڑنے پرکام آسکے ۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے ۔ پادری صاحبان کو چونکہ ہر علاقے میں ہر گھر تک رسائی ہوتی ہے لہذا وہ بڑی آسانی کے ساتھ ہرگھر کے افراد میں خواندہ اور ناخواندہ اور عمر کے لحاظ سے ڈیٹا اکٹھا کرسکتے ہیں یوں ملک میں مسیحی آبادی کا بھی تعین ہوسکے گا اور مردم شماری کے سرکاری اعدادوشمار کو بھی چیلنج کیا جاسکتا ہے ۔
ہمارے ہاں باصلاحیت افراد کی کمی نہیں بس صرف کا م کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے ، ستم یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس وسائل موجود ہیں شاید وہ یہ جذبہ ہی نہیں رکھتے۔ کرسچین ٹیکنکل ٹرینگ انسٹیٹویٹ جیسے مزید ادارے قائم کرکے کم تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ہنر سکھاکر گٹروں میں اترنے سے بچایا جاسکتا ہے اور باصلاحیت نوجوانوں کی راہنمائی کرکے انہیں قومی دارے میں کام کرنے کے قابل کیا جاسکتا ہے۔ کچی بستیوں کے اندھیروں سے نکال کر رہائش کیلئے مناسب بستیاں آباد ہوسکتی ہیں تاکہ نئی نسل میں خود اعتمادی پیدا ہو سکے۔ اس کے علاوہ بہت سے آئیڈیاز موجود ہیں جن پر کام کرکے مسیحی قوم کی حالت بہتر ہوسکتی ہے اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار بھرپور انداز میں ادا کر سکتے ہیں ایسے واقعات کا ادارک بھی ہو سکتا ہے۔
2 Comments
Leave your reply.