سعودی عرب کے متعلق پالیسی بدل رہی ہے ؟


وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے سعود ی عرب کے متعلق بیان کی گونج ابھی ختم نہیں ہوئی مگراس بیان کے بعد پاک سعودی تعلقات کے حوالے سے جوماحول بناتھا وہ ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل بابر افتخارکے ایک بیان اورآرمی چیف قمرجاویدباجوہ کی سعودی عرب روانگی سے یک دم تبدیل ہوگیاہے، میجرجنرل بابرافتخارنے دوٹوک اندازمیںکہا کہ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات تاریخی اور بہت اہم ہیں اور یہ تعلقات بہترین ہیں اور بہترین رہیں گے اور اس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستانی عوام کے دل سعودی عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور ان تعلقات پر کوئی سوال اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس بیان کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء بیک زبان سعودی عرب کے حق میں نعرے لگاتے نظرآرہے ہیں ،جس سے واضح ہوگیاکہ شاہ محمود قریشی کابیان پالیسی شفٹ کانتیجہ نہیں تھا بلکہ حکومت کی نااہلی تھی ،جن لوگوں نے وزیرخارجہ کے بیان کی آڑمیںپاک سعودی تعلقات کے حوالے سے ہنگامہ کھڑاکیاتھا وہ بھی جھاگ کی طرح بیٹھ گئے ہیں ،گزشتہ چنددنوں میں پاکستان میں تعینات سعودی سفیرنواف سعیدالمالکی نے نہایت سرعت رفتاری سے دوبرادرممالک کے درمیان رخنہ ڈالنے کی سازش ناکام بنانے میں اپنابھرپورکرداراداکیا اورانہوں نے ثابت کیا وہ ایک منجھے ہوئے سفارتکارہیں ۔
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کے مابین نہایت مضبوط تعلقات ہیں اوریہ تعلقات ہرگزرتے دن کے ساتھ مضبوط سے مضبوط ترہوئے ہیں موجودہ حکومت ہی کودیکھ لیجیے کہ جب پی ٹی آئی برسراقتدارآئی توپاکستان کا مالی خسارہ جی ڈی پی کے ساڑھے چھ فیصد تک پہنچ چکاتھا تو سعودی عرب نے پاکستان کو چھ ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا۔اس کے علاہ مملکت نے فروری 2019 میں سعودی ولی عہد کے دورہ اسلام آباد کے موقع پر مختلف شعبوں میں 20 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے اعلان کیا جس سے ہماری معیشت کوآکسیجن فراہم ہوئی اورہم ایک مرتبہ پھرسے اپنے پائوں پرکھڑے ہوئے ۔
سعودی عرب نے کشمیرکے مسئلے پرہمیشہ پاکستان کی حمایت کی ہے گزشتہ دوسالوں کاہی جائزہ لیاجائے توکشمیرکے حوالے سے ہراہم موقع پرسعودی عرب ہمارے ساتھ کھڑانظرآیاہے،اس کی واضح مثال یہ ہے کہ جب گذشتہ سال فروری میں بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدگی بڑھی تو خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود کے حکم پروزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کو پاکستان کی حمایت اور اظہار یکجہتی کے لیے اسلام آبادپہنچے اوردونوں ممالک کے درمیان متوقع جنگ ختم کرانے اورماحول ٹھنڈاکرنے میں اپناکردارااداکیا اسی تناظرمیں چار مارچ 2019 کو اس وقت کے وزیراطلاعات فواد چوہدری نے اعلا ن کیا کہ سعودی عرب نے پاکستان اور بھارت کے مابین فوجی کشیدگی کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سعودی عرب نے دیگر ممالک، جیسا کہ متحدہ عرب امارات اور امریکہ کو متحرک کیا کہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ تنائو بڑھانے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
اسی طرح پانچ اگست 2019 کو جب انڈین حکومت نے کشمیر کی آئینی خود مختاری کے خاتمے کا اعلان کیا، تو عمران خا ن نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کوفون کرکے انہیں کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کیاسعودی عرب نے اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں امن و استحکام اور کشمیریوں کے مفادات کا تحفظ کیا جائے.سعودی وزارت خارجہ نے بھارتی اقدام پرتشویش کااظہارکرتے ہوئے زور دیا کہ تنازع جموں وکشمیر کا پرامن حل بین الاقوامی قراردادوں کی روشنی میں نکالا جائے.
وزیراعظم عمران خان نے الجزیرہ ٹی وی کوانٹرویودیتے ہوئے پاکستان کی مدد کرنے میں سعودی عرب کے کردار کو تسلیم کیا، اور کہا کہ سعودی عرب نے نہ صرف یہ کہ انتہائی مشکل معاشی بحران میں ہماری مدد کی، بلکہ سعودی عرب نے ماضی میں بھی ہماری مدد کی جب پاکستان کو پریشانیوں کا سامنا تھا۔ سعودی عرب ہمارے ان مشکل دنوں کا دوست ہے جن کا ہم نے سامنا کیا، اور سعودی عرب میں تقریبا تیس الکھ پاکستانی کام کر رہے ہیں۔
گزشتہ سال ستمبر میں نئی دہلی اور اسلام آباد کے مابین ایک مرتبہ پھرتنائو کی کیفیت پیداہوئی تو سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ، عادل الجبیر، اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ نے پاکستان کادوہ کیا اور وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور پاک فوج کے کمانڈر جنرل قمر جاوید باجوہ، اور دیگر سے ملاقات کرکے کشمیرپراپنی حمایت کایقین دلایااس سے قبل شاہ محمود قریشی نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہاکہ الجبیر اور عبداللہ بن زاید اسلام آباد پہنچ رہے ہیں تاکہ کشمیر کی خطرناک صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔
ہمارے وزیرخارجہ کونہ جانے کیاسوجھی کہ مسئلہ کشمیرپرسعودی عرب کولتاڑدیاحالانکہ دیکھاجائے توموجودہ حکومت کے دورمیں پہلے سے بڑھ کرمسئلہ کشمیرپرپاکستان کاساتھ دیاہے مگرپی ٹی آئی معاملات سے پہلوتہی کرنی نظرآئی رواں سال کے آغاز میں سعودی عرب نے، شوری کونسل کے سپیکر کے ذریعے جموں و کشمیر کے معاملے پر بات کرنے کے لیے وابستہ اسلامی ممالک کی سپیکرز کانفرنس منعقد کرنے کی تجویز پیش کی تھی مگرہماری حکومت نے اس تجویزکومستردکردیا جس پرخود سعودی عرب حیرت زدہ رہ گیا
جہاں تک اسلامی تعاون تنظیم (اوآئی سی )کی بات ہے یہ ادارہ ایک خود مختار اسلامی بین الااقوامی تنظیم ہے جس کی سربراہی وقتا فوقتا مختلف اسلامی ممالک کی شخصیات کرتے ہیں، اگرچہ اس کادفترسعودی شہر جدہ میں واقع ہے،مگراوآئی سی نے ہمیشہ کشمیری عوام کی حمایت میں اپنا کردار ادا کیا، جیسا کہ اس ادارے نے 1994 میں جدہ میں جموں و کشمیر کے معاملے پر رابطہ کمیٹی قائم کی تھی، اور یہ کمیٹی متواتر اجلاس کرتی ہے، جس کا آخری اجلاس 22 جون 2020 کو منعقد ہوا تھا۔اسلامی تعاون تنظیم کی جموں وکشمیر سے متعلق رابطہ کمیٹی نے وزرائے خارجہ کی سطح پر ایک مجازی اجلاس تھا۔ اس میں سعودی عرب، پاکستان، آذربائیجان، ترکی اور نائجر کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے اورمسئلہ کشمیرپربات کی ۔
مقبوضہ کشمیرکی آئینی حیثیت بدلنے کے بعد مجموعی طور پر اگست 2019 سے تنظیم کی رابطہ کمیٹی نے مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں تین اجلاس منعقد کیے، جن میں سے دو وزرائے خارجہ کی سطح پر تھے، ان اجلاسوں میںکشمیری عوام کے مقصد کی حمایت میں سخت بیانات جاری کیے گئے اوربھارتی اقدامات کی مذمت کی گئی
اس کے علاوہ کشمیری شہداء کے حوالے سے ایک کشمیرکمیٹی بھی قائم ہے جس کے اجلاس ہوتے رہتے ہیں اس کا آخریاجلاس گزشتہ ماہ کی13 تاریخ کوہوا جس میں کشمیرکمیٹی کے ممبران ، قونصل جنرل خالدمجید اور ا وآئی سی کے مستقل مندوب وضوان شیخ نے مہمانان خصوصی کے طور پر شرکت کی اورمسئلہ کشمیرپرصورتحال کاجائزہ لیایہ چنداقدامات ہیں جن کاذکرکیاگیاہے سوال یہ ہے کہ ہم مسئلہ کشمیرپرسعودی عرب سے کیسی امدادچاہتے ہیں ؟اگرہم یہ چاہتے ہیں کہ کشمیرپرسعودی عرب سفارتی ،سیاسی اوراخلاقی حمایت کرے تووہ پہلے دن سے یہ کررہاہے اورآئندہ بھی کرے گا ،جہاں تک اوآئی سی کے متبادل فورم بنانے کی بات ہے تواس طرح کے اقدامات ہمیں مزیدتنہاکردیں گے ، مسئلہ کشمیرہم جہاں تک جائیں گے سعودی عرب وہاں تک ہمارے ساتھ کھڑارہے گا ۔اوآئی سی کے متبادل پلیٹ فورم ہماری خواہش توہوسکتی ہے مگرعملاایساکوئی پلیٹ فارم امت کومتحدکرنے کی بجائے مزیدانتشاراوراختلافات کاشکارکردے گا
وزیرخارجہ شاہ قریشی پروفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے لنکاڈھادی ہے انہوں نے کہاکہ وزیراعظم نے اپنی تقاریر اور بیانات سے تن تنہا کشمیر کا بیانیہ بدل کر دکھایا۔ مگردفتر خارجہ اور دیگر اداروں نے وزیراعظم کی کوششوں اور کشمیریوں کی جدوجہد کو ناکام بنایا۔ وفاقی وزیر انسانی حقوق نے کہ اگر ہمارا دفترخارجہ وزیراعظم کے بیانیے کو لے کر چلتا تو حالات مختلف ہوتے۔ چاہے عالمی سیاست جو بھی ہو، دفتر خارجہ کام کرتا تو دنیا کشمیر پر ہماری بات ضرور سنتی۔ مگر ہمارے سفارتکار آرام، تھری پیس سوٹس اور کلف لگے کپڑے پہننے اور ٹیلی فون کرنے کے سوا کچھ کرنے پر تیار نہیں۔وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سفارت کاری میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔شیری مزاری نے مزید کہا کہ کشمیر کے لیے آواز بلند کرنے کے لیے ہمیں روایتی سفارتکاری سے نکلنا ہوگا، کشمیر کے لیے آواز بلند کرنے کے لیے ہمیں جدید طریقہ کار اپنانے کی ضرورت ہے۔
سعودی عرب ہماراصرف پراعتماددوست نہیںبلکہ بڑابھائی ہے،سعودی عرب میں ملازمت کرنے والے لاکھوں پاکستانی اربوں روپے کے ترسیلات زربھیج کر ہماری معیشت کی ترقی میں بنیادی کرداراداکررہے ہیں ، کیا ترکی، چین، ملائیشیا اور ایران اتنی تعداد میں پاکستانی ملازمت کررہے ہیں ؟یایہ ممالک اتنے پاکستانیوں کوملازمت دے سکتے ہیں ؟حقیقت یہ ہے کہ ترکی میں صرف 500پاکستانی ملازمت کررہے ہیں ۔ چین میں 15 ہزار، ایران میں 40 ہزار، اور ملائیشیا میں قریبا 60 ہزار۔ یہ ملا کر ایک لاکھ 15 ہزار پانچ سو پاکستانی بنتے ہیں۔ جب کہ اکیلے سعودی میں 26 لاکھ کے قریب پاکستانی بر سر روزگار ہیں۔
اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ سعودیہ اور پاکستانی عوام کے دل ہمیشہ ایک ساتھ دھڑکتے ہیں، دونوں ممالک کے عوام میں اخوت اور بھائی چارے کا مضبوط رشتہ ہے، ہر مشکل وقت میں سعودی عرب پاکستان کیساتھ کندھے سے کندھا ملاکر چلتا ہے، پاکستان کی تعمیر و ترقی میں سعودی حکومت کا تعاون لائق تحسین ہے ،شاہ قریشی کے تلخ وترش بیان کے بعدسعودی سفیر نواف بن سعید احمد المالکی نے محبت بھراپیغام دیاہے کہ ہم پاکستان کو اپنا گھر سمجھتے ہیں، پاکستان کو پہلے کبھی تنہا چھوڑا نہ ہی آئندہ چھوڑیں گے۔