درویش کی محفل میں


ملک میں افراتفری کاماحول ہے ہربندہ پریشان ہے ہرکوئی سکون کی تلاش میں سرگرداں ہے مگرسکون مل نہیں رہاایسے میں سال 2020اس حوالے سے بھی خوفناک ہے کہ علماء ،مشائخ ،صوفیاء ،خطباء اوراہل اللہ تیزی سے اس دنیاسے کوچ کررہے ہیں روحانی سکون کے مواقع پہلے ہی کم تھے جو مزیدناپیدہوتے جارہے ہیں ،اسی روحانی سکون کی تلاش اورکچھ دیراس دنیاسے کنارہ کش ہوکرہم ایک مرتبہ پھرمرددرویش ،خادم الامت حضرت سیدنورزمان شاہ نقشبندی کی محفل میں جاپہنچے کیوں کہ اہل جنوں کے دم قدم سے ہی بزم ہستی کاجمال سرمدی ہے ۔جرید عالم پر ان وفاکیش ہستیوں کی داستانیں ثبت ہیں جن کے نور بصیرت نے ہمیشہ ظلمت کدہ دہر کو ضیابارکیا۔ جن کے نفس گرم سے دلوں کے اجڑے دیار کو حیات نو کی خلعت عطاہوئی۔جن کے حسن تدبیر سے بھٹکے ہوئے آہوراہ یاب ہوئے۔ جن کا ظاہری جمال بہار آفریں ٹھہرا اورباطنی کمال ،عالم میں ثبات بہاراں کی نوید لایا ۔
یہ بھی دیکھیں
عوام کی نظر میں وزیر اعظم کا کنسٹرکشن پیکیج کس حد تک مفید ہے
سراج العارفین شہباز طریقت ،چراغ تصوف پیرسیدابوالحسن سیدنورزمان نقشبندی شاذلی کی ذات کو ایک منفرد مقام حاصل ہے ۔آپ کی حکمت گفتگو فرزانگی کااعلی نمونہ ہے اورجن کا قابل تقلید کردار دیوانگی کاآئینہ دار ہے۔ صحرائے عشق ومستی کایہ پرعزم راہی سوئے منزل جادہ پیماہے ۔ اس راہ میں وہ آبلہ پاضرورہے لیکن نوک خارکی تیزی اس کی سرعت سیر کو مسدود نہ کرسکی ۔وہ بے سروساماں ضرورہے لیکن راستے کے نشیب وفراز اس کے عزائم کو محدود نہ کرسکے۔ اس کا قلب وجگر مجروح ضرورہے لیکن اس درد جراحت کی شدت اسے راستہ بدلنے پرمجبور نہ کرسکی۔ اس کا وظیفہ صرف یہی ہے ۔
اے عشق آکہ بے سروساماں سفر کریں
معیار رفعت، معیار طاقت کامحتاج نہیں ہوتابلکہ قدرت کی طرف سے عطاہونے والی صلاحیتوں کو منشا خداوندی کے مطابق بروئے کارلانے کے صلہ میں مقام رفیع پرفائز کردیا جاتا ہے کیونکہ
یہاں فقط سر شاہاں کے واسطے ہے کلاہ
یہ ایک لازمی حقیقت ہے کہ شخصیت کی تعمیر میں کسی مرددرویش کی تربیت اہم کردار اداکرتی ہے، کسی شمس تبریز کی صحبت کاپرتوجمال ،آئینہ دل کو جلابخش کرمولائے روم بنادیتاہے ۔اور وقت کے اولیاء مفتی رشیداحمدلدھیانوی ، سیداحمد علی شاہ اورقاری ضیاء اللہ شاہ جیسے بزرگوں کی خصوصی توجہات نے شیخ سیدنورزمان جیسے مرید رشید میں مذاق سلیم پیدا کردیا ۔اس شیخ کامل نے اس زرخیز زمین میں عشق الہی وعشق رسول کاپودا لگا کر کیف وسرور سے اس کی آبیاری کی ، جوایک عرصہ بعد آئین جہاں بانی کاتن آور اور ثمربار شجر بن گیا ۔شیخ سیدنورزمان کو اپنے پیرومرشد کے حسن تربیت نے اتناراست باز اور آتش عشق میں غوطہ زنی نے اتنا کندن بنادیا کہ آپ کو عصر حاضر کے خرقہ فروشان خانقاہ کا طرزعمل خوش نہ آیا۔ آپ بزم وحدت سے تیغ لاالہ لے کر نکلے اورضرب الااللہ سے بتان جہاں کو پاش پاش کردیا۔آپ کی نوائے شوق سے جہان شرک وبدعت میں ایک شور اٹھااور پھرہرطرف سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے۔آپ نے اپنی مستانہ نوائی سے خرافات والحاد کے حلقہ دام کوتوڑ کر قدم قدم پرعظمت اسلام کویادگار بنادیاہے۔
شیخ نورزمان نے خلوت نشینی پرپیغام رسالت نگرنگر پہنچانے کو ترجیح دی تاکہ سرکش ذہن، طاغوت سے رشتہ ناطہ توڑ کر پھر سے حلاوت ایمان کے مزے لیں ۔اس اہم مشن کی ترویج وترقی کی خاطر آپ شب وروزاسفارکرتے ہیں اپنے معمولا ت کے باوجود آپ ہر ایک سے بلاامتیاز ملتے ہیںہماراوفدبھی جب سلسلہ نقشبندیہ شاذلیہ باغ آزادکشمیرکے امیرحاجی سرفرازنقشبندی شاذلی کی سربراہی میںحاضرہواجس میں بھائی اظہر،بھائی مبشرودیگرشامل تھے توحضرت پرتپاک اندازمیں ملے ان کے درکی یہی خاص بات ہے کہ امیر، غریب ،چھوٹا، بڑاجوبھی آتاہے آپ تبسم ریز، دونوں ہاتھ واکیے اسے سینے سے لگاتے ہیں ،چھوٹوں پرہمیشہ دست شفقت رکھتے ہیں ۔ہرکوئی یہ محسوس کرتاکہ حضرت سیدابوالحسن شاہ نے مجھ پر اپنے کرم کی انتہا کردی ہے۔ آپ سادات ، مشائخ اورعلما ء کاانتہائی ادب واحترام فرماتے ہیں ۔سراپا عجز بن کر ان کی خدمت میں ارادتمندوں کی طرح بیٹھتے ہیں۔
آپ کے روحانی واصلاحی دروس میںجب بھی شرکت کرنے کا موقع ملا تومیں نے محسوس کیاکہ مصلح ومربی میں جن اوصاف کاپایا جانا انتہائی ناگزیر ہے وہ تمام بدرجہ اتم آپ کی ذات میں موجود ہیں۔ آپ ادق مضامین کو نہایت سادہ الفاظ اور دلنشین انداز میں سامعین تک پہنچااور سمجھا دیتے۔دروس تصوف کی سماعت کے بعد محسوس ہوتاہے کہ واقعی کچھ حاصل ہواہے اوردل سے الائش دنیا کا بارگراں کم ہواہے ۔مجالس ذکر وفکر کے بعد ہم نے مشاہدہ کیا کہ لوگوں کا قلبی میلان عبادات کی طرف کچھ زیادہ ہی ہوجاتاہے۔ آپ جب بھی گفتگو فرمارہے ہوتے ہیں تومحفل میںشریک ہرآدمی یہی سوچتاہے کہ کتنا دردہے انسانیت کیلئے انکے د ل میں ،کتنی چاہت ہے انہیں امت مصطفی سے ،کتنے مخلص ہیں اپنے ساتھیوں کیلئے ،کتنے قدرداں ہیں اصحاب علم کے ۔
حضرت سیدنورزمان شاہ کی شخصیت بہت مبارک، بہت سادہ، تکلفات سے پاک، تواضع او رانکساری سے بھرپور، بہت مضبوط علمی، عملی ، روحانی شخصیت ہے ۔ آپ کو اللہ تعالی نے یہ اعزاز عطا فرمایاکہ آپ نے روحانی علم کوچھپایانہیں بلکہ پھیلایاہے یہی وجہ ہے کہ چندسالوں میں ہی آپ نے ہزاروں شاگردتیارکیے جولاکھوں افرادکوسیراب کرچکے ہیں ،
آپ کایہ کہناہے کہ اللہ تعالی نے موسم جدا جدا رکھے ہیں سردی، گرمی، بہار اور خزاں۔ ہر موسم کی تاثیر اور خصوصیات جدا جدا ہیں۔ ایک موسم کی خصوصیات اور اثرات آپ کسی دوسرے موسم میں نہیں لاسکتے۔ حالانکہ زمیں وہی ہوتی ہے، اس میں ڈالی جانے والی کھاد وہی ہوتی ہے، مالی وہی ہوتا ہے، پانی وہی ہوتا ہے، بیج بھی ایک ہے۔ مگر جس شان و شوکت سے پھول موسم بہار میں کھلتے ہیں، وہ کسی اور موسم میں نہیں کھلتے۔ موسمِ بہار میں ہریالی آتی ہے، سبزا اگتا ہے، رنگا رنگ پھول اگتے ہیں، پھر جب خزاں آتی ہے تو پت جھڑ ہو جاتا ہے۔ لہذا ظاہری علامات، اسباب اور وسائل ایک جیسے ہیں مگر موسم بدلنے سے اتنا فرق پڑ جاتا ہے کہ جو اثرات موسم بہار میں مرتب ہوتے ہیں دیگر موسموں میں نہیں ہوتے۔
اسی طرح اللہ نے روحانی موسم بھی بنائے ہیں۔ بعض گڑھیاں، دنوں، راتوں اور مہینوں میں اللہ کا فضل اپنے جوبن پر ہوتا ہے حالانکہ مالک وہی ہے، سجدہ کرنے والے وہی ہوتے ہیں، ہاتھ اٹھانے والے بھی وہی ہوتے ہیں، گڑگڑانے والے بھی وہی ہوتے ہیں، مانگنے والے وہی ہوتے ہیں مگر کسی خاص وقت اور موسم میں اس کی اجابت اور قبولیت کی شان نرالی ہوتی ہے، قبولیت اور اجابت کی ہوا چلتی ہے اور اس میں نیکی، اطاعت، عبادت، تقوی، معرفت، قبولیت اور قرب کے پھول اگنے لگتے ہیں، دل کی کھیتی میں ہریالی آ جاتی ہے، روح کی ویران فصلیں سرسبز و شاداب ہونے لگتی ہیں جبکہ باقی موسموں میں یہ اثرات نہیں ہوتے۔ ایسے بابرکت موسم کبھی راتوں میں آتے ہیں اور کبھی مہینوں میں آتے ہیں۔ یہ اللہ کا نظام قدرت ہے اس کا انکار کرنا اللہ کے نظام قدرت کا انکار ہے۔ یہ کسی عقیدہ ومسلک کی بات نہیں ہے، یہ تو نظام قدرت کی بات ہے۔
میں نے سوال کیاکہ حضرت اس وقت امت مسلمہ کو سنگین مسائل کا سامنا ہے۔دشمنان ِاسلام اپنے خوفناک اسلحہ و گولہ بارود کے ساتھ توہین رسالت کے مرتکب ہورہے ہیں اور خون مسلم کی ارزانی کے نت نئے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں دہشت گردی کا مضحکہ خیز الزام عائد کرنے کے بعد وہ ہمارے خلاف خبث ِباطن کے اظہار اور مذموم ارادوں کی تکمیل کے لئے شب و روز مصروف عمل ہیں جبکہ امت مسلمہ کے عوام و خواص دونوں ہی یہود ونصاری اور دیگر ستم گران ِ زمین کے بڑھتے ہوئے مکر و فریب ، چیرہ دستیوں ، ریشہ دانیوں اور کہہ مکرنیوں کے سد باب کی کسی عملی کوشش کی فکر سے تہی دکھائی دیتے ہیں ۔
حضرت نے فرمایاکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی آبادی ان مسلمان ممالک کی افرادی قوت، قدرتی وسائل ، ان کی جغرافیائی اہمیت، دین کی بنیاد پران کے مابین فطری، نظریاتی و فکری ہم آہنگی کوزیر استعمال لانے اور فروغ دینے کی ضرورت ہے ،آج جب ہم امت مسلمہ کی محرومیوں، مایوسیوں، مسائل و مشکلات کا تجزیہ کرتے ہیں تو بلا شبہ اس کے اسباب و علل میں اخوت اسلامی کے فقدان اور آپس کی ظلم و نا انصافی کے ساتھ ساتھ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک تعلیمات پرعملدرآمد نہ کرنا سرفہرست دکھائی دیتا ہے۔ امت مسلمہ کاخانوں میں تقسیم ہونایہی امت کے زوال اور پستی کی بنیادی وجہ ہے